رخ و زلف کا ہوں فسانہ خواں یہی مشغلہ یہی کام ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رخ و زلف کا ہوں فسانہ خواں یہی مشغلہ یہی کام ہے
by ثاقب لکھنوی

رخ و زلف کا ہوں فسانہ خواں یہی مشغلہ یہی کام ہے
مجھے دن کا چین عذاب جاں مجھے شب کی نیند حرام ہے

ترے انتظار میں ہے تعب یہ مریض ہجر ہے جاں بہ لب
کہیں آ بھی وعدہ خلاف اب کہ یہاں تو کام تمام ہے

کہوں حسرتوں کا ہجوم کیا در دل تک آ کے وہ بے وفا
مجھے یہ سنا کے پلٹ گیا کہ یہاں تو مجمع عام ہے

نہ وہ مہر و ماہ کی تابشیں نہ وہ اختروں کی نمائشیں
نہ وہ آسماں کی ہیں گردشیں نہ وہ صبح ہے نہ وہ شام ہے

مرے دم پہ عشق میں ہے بنی تجھے وعظ و پند کی ہے پڑی
مرے ناصحا تجھے بندگی تری دوستی کو سلام ہے

نہ ستائیں وہ نہ ستائیں وہ ادھر آئیں وہ ادھر آئیں وہ
نہ سہی مجھی کو بلائیں وہ یہ خیال باطل و خام ہے

تپ غم سے ہوتی ہے اب مفر کہ طبیب مرگ ہے چارہ گر
مرا قصہ آج ہے مختصر مری داستان تمام ہے

ہے کہاں وہ ساقیٔ تند خو کہ ہے میکدے میں یہ ہا و ہو
کہیں سرنگوں ہیں خم و سبو کہیں شیشہ ہے کہیں جام ہے

نہیں دل کو فکر یہ بے سبب گیا دن کہاں ہوئی رات کب
مجھے روز وصل ہے عجب ابھی صبح تھی ابھی شام ہے

نہ وہ میہمان حریم دل نہ خیال اس کا مقیم دل
ہوئی قطع رسم قدیم دل نہ پیام ہے نہ سلام ہے

کہیں حسن والوں کے درمیاں یہ غزل سنی تو کہا کہ ہاں
یہ ہے نظم ثاقبؔ خوش بیاں یہ اسی کا طرز کلام ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse