رخ و زلف پر جان کھویا کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رخ و زلف پر جان کھویا کیا
by حیدر علی آتش

رخ و زلف پر جان کھویا کیا
اندھیرے اجالے میں رویا کیا

ہمیشہ لکھے وصف دندان یار
قلم اپنا موتی پرویا کیا

کہوں کیا ہوئی عمر کیوں کر بسر
میں جاگا کیا بخت سویا کیا

رہی سبز بے فکر کشت سخن
نہ جوتا کیا میں نہ بویا کیا

برہمن کو باتوں کی حسرت رہی
خدا نے بتوں کو نہ گویا کیا

مزا غم کے کھانے کا جس کو پڑا
وہ اشکوں سے ہاتھ اپنے دھویا کیا

زنخداں سے آتشؔ محبت رہی
کنوئیں میں مجھے دل ڈبویا کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse