رخ سے برقع جو الٹ دے وہ تو آفت ہو جائے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رخ سے برقع جو الٹ دے وہ تو آفت ہو جائے
by میر کلو عرش

رخ سے برقع جو الٹ دے وہ تو آفت ہو جائے
قد کشی ہو تو نمودار قیامت ہو جائے

دولت حسن بتاں سے تو نہ رہئے محروم
بادشاہی نہ ہو پر عشق کی دولت ہو جائے

حال دیکھے ترے حیراں کا جو اے آئنہ رو
ہے یقیں دیدۂ تصویر کو رقت ہو جائے

نام گھر جانے کا لے یار اگر تو شب وصل
خانۂ تن سے یہاں جان بھی رخصت ہو جائے

طائر باغ اسیران بلا ناحق ہیں
ابھی اڑ جائیں تصور میں جو ہمت ہو جائے

انتظار بت بے پیر سے کیا اس کا عجب
مر گئے پر بھی جو وا دیدۂ حسرت ہو جائے

دوستوں کا یہ ہوا حال کہ کہتی ہے خلق
دشمنوں کو بھی ترے ساتھ نہ الفت ہو جائے

اک نظر دیکھے ترا حسن جو اے آئینہ رو
ابھی تصویر کا وا دیدۂ حیرت ہو جائے

طبع عالی یہی کہتی ہے قلم سے ہر دم
شعر وہ لکھ تو کہ آفاق میں شہرت ہو جائے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse