رخ جو زیر سنبل پر پیچ و تاب آ جائے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رخ جو زیر سنبل پر پیچ و تاب آ جائے گا
by بہادر شاہ ظفر

رخ جو زیر سنبل پر پیچ و تاب آ جائے گا
پھر کے برج سنبلہ میں آفتاب آ جائے گا

تیرا احساں ہوگا قاصد گر شتاب آ جائے گا
صبر مجھ کو دیکھ کر خط کا جواب آ جائے گا

ہو نہ بیتاب اتنا گر اس کا عتاب آ جائے گا
تو غضب میں اے دل خانہ خراب آ جائے گا

اس قدر رونا نہیں بہتر بس اب اشکوں کو روک
ورنہ طوفاں دیکھ اے چشم پر آب آ جائے گا

پیش ہووے گا اگر تیرے گناہوں کا حساب
تنگ ظالم عرصۂ روز حساب آ جائے گا

دیکھ کر دست ستم میں تیری تیغ آب دار
میرے ہر زخم جگر کے منہ میں آب آ جائے گا

اپنی چشم مست کی گردش نہ اے ساقی دکھا
دیکھ چکر میں ابھی جام شراب آ جائے گا

خوب ہوگا ہاں جو سینہ سے نکل جائے گا تو
چین مجھ کو اے دل پر اضطراب آ جائے گا

اے ظفرؔ اٹھ جائے گا جب پردہ شرم و حجاب
سامنے وہ یار میرے بے حجاب آ جائے گا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.