رخسار کے پرتو سے بجلی کی نئی دھج ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رخسار کے پرتو سے بجلی کی نئی دھج ہے
by آغا شاعر قزلباش

رخسار کے پرتو سے بجلی کی نئی دھج ہے
کیوں آنکھ جھپکتی ہے کیا سامنے سورج ہے

دنیا کی زمینوں سے اے چرخ تو کیا واقف
اک اک یہاں پنہاں کاؤس ہے ایرج ہے

دروازے پہ اس بت کے سو بار ہمیں جانا
اپنا تو یہی کعبہ اپنا تو یہی حج ہے

اے ابروئے جاناں تو اتنا تو بتا ہم کو
کس رخ سے کریں سجدہ قبلے میں ذرا کج ہے

انصاف کرو لوگو انصاف کرو پیارو
شاعرؔ کی زمانے میں دنیا سے نئی دھج ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse