رخسار کو ہے زلف شکن در شکن سے ربط

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رخسار کو ہے زلف شکن در شکن سے ربط  (1928) 
by سید امیر حسن بدر

رخسار کو ہے زلف شکن در شکن سے ربط
یعنی ہے شیخ کعبہ کو اب برہمن سے ربط

یوں ہی ہے مجھ کو اس بت پیماں شکن سے ربط
ہے چند روزہ روح کا جیسے بدن سے ربط

پھولوں کو جس طرح ہو بہار چمن سے ربط
یوں ہی تھا مجھ کو بھی کسی گل پیرہن سے ربط

رکھتا نہیں ہوں صرف حسین و حسن سے ربط
ہے مجھ کو چار یار سے اور پنجتن سے ربط

خوشیاں منائیں غیر نہ اس ارتباط پر
مجھ سے بھی تھا کبھی بت پیماں شکن سے ربط

حمد و ثنا میں تیری میں رطب الساں رہوں
جب تک رہے دہن میں زباں کو سخن سے ربط

دیوانہ چشم و گیسوئے مشکیں کا ہوں ترے
رکھتا ہوں اس لئے میں غرال ختن سے ربط

ہم بھی کسی کے تیر نظر کے شکار تھے
ہم کو بھی تھا کبھی کسی ناوک فگن سے ربط

کس درجہ طول ہے شب تار فراق یار
شاید ہے اس کو زلف شکن در شکن سے ربط

تیر نظر سے دل کو نہ چھلنی بناؤ بدرؔ
اچھا نہیں ہے اس بت ناوک فگن سے ربط

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse