راہ پر خار ہے کیا ہونا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
راہ پر خار ہے کیا ہونا ہے
by احمد رضا خان

راہ پر خار ہے کیا ہونا ہے
پاؤں افگار ہے کیا ہونا ہے

کام زنداں کے کیے اور ہمیں
شوق گلزار ہے کیا ہونا ہے

جان ہلکان ہوئی جاتی ہے
بار سا بار ہے کیا ہونا ہے

پار جانا ہے نہیں ملتی ناؤ
زور پر دھار ہے کیا ہونا ہے

روشنی کی ہمیں عادت اور گھر
تیرہ و تار ہے کیا ہونا ہے

بیچ میں آگ کا دریا حائل
قصد اس پار ہے کیا ہونا ہے

ساتھ والوں نے یہیں چھوڑ دیا
بے کسی یار ہے کیا ہونا ہے

آخری دید ہے آؤ مل لیں
رنج بے کار ہے کیا ہونا ہے

دل ہمیں تم سے لگانا ہی نہ تھا
اب سفر بار ہے کیا ہونا ہے

کیوں رضاؔ کڑھتے ہو ہنستے اٹھو
جب وہ غفار ہے کیا ہونا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse