راہ پر ان کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
راہ پر ان کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں
by داغ دہلوی

راہ پر ان کو لگا لائے تو ہیں باتوں میں
اور کھل جائیں گے دو چار ملاقاتوں میں

یہ بھی تم جانتے ہو چند ملاقاتوں میں
آزمایا ہے تمہیں ہم نے کئی باتوں میں

غیر کے سر کی بلائیں جو نہیں لیں ظالم
کیا مرے قتل کو بھی جان نہیں ہاتھوں میں

ابر رحمت ہی برستا نظر آیا زاہد
خاک اڑتی کبھی دیکھی نہ خراباتوں میں

یا رب اس چاند کے ٹکڑے کو کہاں سے لاؤں
روشنی جس کی ہو ان تاروں بھری راتوں میں

تمہیں انصاف سے اے حضرت ناصح کہہ دو
لطف ان باتوں میں آتا ہے کہ ان باتوں میں

دوڑ کر دست دعا ساتھ دعا کے جاتے
ہائے پیدا نہ ہوئے پاؤں مرے ہاتھوں میں

جلوہ یار سے جب بزم میں غش آیا ہے
تو رقیبوں نے سنبھالا ہے مجھے ہاتھوں میں

ایسی تقریر سنی تھی نہ کبھی شوخ و شریر
تیری آنکھوں کے بھی فتنے ہیں تری باتوں میں

ہم سے انکار ہوا غیر سے اقرار ہوا
فیصلہ خوب کیا آپ نے دو باتوں میں

ہفت افلاک ہیں لیکن نہیں کھلتا یہ حجاب
کون سا دشمن عشاق ہیں ان ساتوں میں

اور سنتے ابھی رندوں سے جناب واعظ
چل دئے آپ تو دو چار صلٰواتوں میں

ہم نے دیکھا انہیں لوگوں کو ترا دم بھرتے
جن کی شہرت تھی یہ ہرگز نہیں ان باتوں میں

بھیجے دیتا ہے انہیں عشق متاع دل و جاں
ایک سرکار لٹی جاتی ہے سوغاتوں میں

دل کچھ آگاہ تو ہو شیوۂ عیاری سے
اس لئے آپ ہم آتے ہیں تری گھاتوں میں

وصل کیسا وہ کسی طرح بہلتے ہی نہ تھے
شام سے صبح ہوئی ان کی مداراتوں میں

وہ گئے دن جو رہے یاد بتوں کی اے داغؔ
رات بھر اب تو گزرتی ہے مناجاتوں میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse