راہ و رسم خط کتابت ہی سہی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
راہ و رسم خط کتابت ہی سہی
by اسماعیل میرٹھی

راہ و رسم خط کتابت ہی سہی
گل نہیں تو گل کی نکہت ہی سہی

دل لگی کا کوئی ساماں چاہئے
قحط معنی ہو تو صورت ہی سہی

بے دماغی بندہ پرور اس قدر
آپ کی سب پر حکومت ہی سہی

دوستی کا میں نے کب دعویٰ کیا
دور کی صاحب سلامت ہی سہی

بسکہ ذکرالعیش نصف العیش ہے
یاد ایام فراغت ہی سہی

وقت ملنے کا معین کیجئے
خواہ فردائے قیامت ہی سہی

حسن صورت کا نہ کھا اصلاً فریب
کلک صنعت گر کی صنعت ہی سہی

کچھ نہ کرنا بھی مگر اک کام ہے
گر نہیں صحبت تو عزلت ہی سہی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse