راہنما بن جاؤں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
راہنما بن جاؤں
by افسر میرٹھی

درد جس دل میں ہو اس دل کی دوا بن جاؤں
کوئی بیمار اگر ہو تو شفا بن جاؤں
دکھ میں ہلتے ہوئے لب کی میں دعا بن جاؤں
اف وہ آنکھیں کہ ہیں بینائی سے محروم کہیں
روشنی جن میں نہیں نور جن آنکھوں میں نہیں
میں ان آنکھوں کے لیے نور ضیا بن جاؤں
ہائے وہ دل جو تڑپتا ہوا گھر سے نکلے
اف وہ آنسو جو کسی دیدۂ تر سے نکلے
میں اس آنسو کے سکھانے کو ہوا بن جاؤں
دور منزل سے اگر راہ میں تھک جائے کوئی
جب مسافر کہیں رستے سے بھٹک جائے کوئی
خضر کا کام کروں راہنما بن جاؤں
عمر کے بوجھ سے جو لوگ دبے جاتے ہیں
ناتوانی سے جو ہر روز جھکے جاتے ہیں
ان ضعیفوں کے سہارے کو عصا بن جاؤں
خدمت خلق کا ہر سمت میں چرچا کر دوں
مادر ہند کو جنت کا نمونہ کر دوں
گھر کرے دل میں جو افسرؔ وہ صدا بن جاؤں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse