راکھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
راکھی
by نظیر اکبر آبادی

چلی آتی ہے اب تو ہر کہیں بازار کی راکھی
سنہری سبز ریشم زرد اور گلنار کی راکھی
بنی ہے گو کہ نادر خوب ہر سردار کی راکھی
سلونوں میں عجب رنگیں ہے اس دل دار کی راکھی
نہ پہنچے ایک گل کو یار جس گل زار کی راکھی

عیاں ہے اب تو راکھی بھی چمن بھی گل بھی شبنم بھی
جھمک جاتا ہے موتی اور جھلک جاتا ہے ریشم بھی
تماشا ہے اہا ہا ہا غنیمت ہے یہ عالم بھی
اٹھانا ہاتھ پیارے واہ وا ٹک دیکھ لیں ہم بھی
تمہاری موتیوں کی اور زری کے تار کی راکھی

مچی ہے ہر طرف کیا کیا سلونوں کی بہار اب تو
ہر اک گل رو پھرے ہے راکھی باندھے ہاتھ میں خوش ہو
ہوس جو دل میں گزرے ہے کہوں کیا آہ میں تم کو
یہی آتا ہے جی میں بن کے بامھن، آج تو یارو
میں اپنے ہاتھ سے پیارے کے باندھوں پیار کی راکھی

ہوئی ہے زیب و زینت اور خوباں کو تو راکھی سے
ولیکن تم سے اے جاں اور کچھ راکھی کے گل پھولے
دوانی بلبلیں ہوں دیکھ گل چننے لگیں تنکے
تمہارے ہاتھ نے مہندی نے انگشتوں نے ناخن نے
گلستاں کی چمن کی باغ کی گل زار کی راکھی

ادا سے ہاتھ اٹھتے ہیں گل راکھی جو ہلتے ہیں
کلیجے دیکھنے والوں کے کیا کیا آہ چھلتے ہیں
کہاں نازک یہ پہنچے اور کہاں یہ رنگ ملتے ہیں
چمن میں شاخ پر کب اس طرح کے پھول کھلتے ہیں
جو کچھ خوبی میں ہے اس شوخ گل رخسار کی راکھی

پھریں ہیں راکھیاں باندھے جو ہر دم حسن کے تارے
تو ان کی راکھیوں کو دیکھ اے جاں چاؤ کے مارے
پہن زنار اور قشقہ لگا ماتھے اپر بارے
نظیرؔ آیا ہے بامھن بن کے راکھی باندھنے پیارے
بندھا لو اس سے تم ہنس کر اب اس تیوہار کی راکھی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse