راز چشم مے گوں ہے کیف مدعا میرا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
راز چشم مے گوں ہے کیف مدعا میرا  (1940) 
by علی منظور حیدرآبادی

راز چشم مے گوں ہے کیف مدعا میرا
غیر کی نظر سے ہے دور میکدہ میرا

واسطے کی خوبی نے سہل منزلیں کر دیں
حسن عشق کا رہبر عشق رہنما میرا

کر دیا مجھے بے خود ان کی بے نیازی نے
کہہ رہا ہوں خود ان سے دل سنبھالنا میرا

ہائے خوف بدنامی وائے فکر ناکامی
بے وفا کے ہاتھوں میں حاصل وفا میرا

لطف خلوت و جلوت ہم نہ پا سکے لیکن
دھوم ہر طرف ان کی ذکر جا بہ جا میرا

طرز والہانہ کی داد کب ملی مجھ کو
ناز دوست کب نکلا صورت آشنا میرا

سوچنے لگے گی کچھ تیری خوش نگاہی بھی
رائیگاں نہ جائے گا یوں ہی دیکھنا میرا

میں نے جب کبھی دیکھا سر جھکا لیا تو نے
تو نے جب کبھی دیکھا دل تڑپ گیا میرا

عشرت حجاب از خود چارہ ساز دل کیا ہو
ساز ہو جب اے ظالم سوز آشنا میرا

میری خستہ حالی نے سعیٔ خود شناسی کی
ان کی خود نمائی نے جب کیا گلہ میرا

ہے جو حضرت منظورؔ اعتبار ایں و آں
اذن بے خودی لے کر پوچھئے پتا میرا

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse