راز عشق اظہار کے قابل نہیں
Appearance
راز عشق اظہار کے قابل نہیں
جرم یہ اقرار کے قابل نہیں
آنکھ پر خوں شق جگر دل داغ دار
کوئی نذر یار کے قابل نہیں
دید کے قابل حسیں تو ہیں بہت
ہر نظر دیدار کے قابل نہیں
دے رہے ہیں مے وہ اپنے ہاتھ سے
اب یہ شے انکار کے قابل نہیں
جان دینے کی اجازت دیجیے
سر مرا سرکار کے قابل نہیں
چھوڑ بھی گلشن کو اے نرگس کہیں
یہ ہوا بیمار کے قابل نہیں
شاعری کو طبع رنگیں چاہیئے
ہر زمیں گل زار کے قابل نہیں
خامشی میری یہ کہتی ہے جلیلؔ
درد دل اظہار کے قابل نہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |