راز دل لاتے ہیں زباں تک ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
راز دل لاتے ہیں زباں تک ہم
by حسن بریلوی

راز دل لاتے ہیں زباں تک ہم
دکھ بھریں اے خدا کہاں تک ہم

اور وہ ہم سے کھنچتے جاتے ہیں
منتیں کرتے ہیں جہاں تک ہم

نہ اڑا باغباں کہ گلشن دل
اور ہیں آمد خزاں تک ہم

آپ کے لطف نے تو قہر کیا
خوب تھے جور آسماں تک ہم

آسماں تک گیا ہے سیل سرشک
دل کو رویا کریں کہاں تک ہم

ان کا آنا بھی اب نہیں منظور
جان سے تنگ ہیں یہاں تک ہم

تیرا پیغام بھی سنا دیں گے
اے حسنؔ پہنچیں تو وہاں تک ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse