راز جو سینۂ فطرت میں نہاں ہوتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
راز جو سینۂ فطرت میں نہاں ہوتا ہے
by جگر مراد آبادی

راز جو سینۂ فطرت میں نہاں ہوتا ہے
سب سے پہلے دل شاعر پہ عیاں ہوتا ہے

سخت خوں ریز جب آشوب جہاں ہوتا ہے
نہیں معلوم یہ انسان کہاں ہوتا ہے

جب کوئی حادثۂ کون و مکاں ہوتا ہے
ذرہ ذرہ میری جانب نگراں ہوتا ہے

جو نظر کردۂ صاحب نظراں ہوتا ہے
اسی دیوانے کے قدموں پہ جہاں ہوتا ہے

جب کوئی عشق میں برباد جہاں ہوتا ہے
مجھ کو محسوس خود اپنا ہی زیاں ہوتا ہے

متزلزل ہے ادب گاہ محبت کی زمیں
کوئی دیکھے تو یہ ہنگامہ کہاں ہوتا ہے

کہیں ایسا تو نہیں وہ بھی ہو کوئی آزار
تجھ کو جس چیز پہ راحت کا گماں ہوتا ہے

دل غنی ہو تو ہر اک رنج بھی دل کی راحت
ذہن مفلس ہو تو ہر سود زیاں ہوتا ہے

امتحاں گاہ محبت میں نہ رکھے وہ قدم
موت کے نام سے جس کو خفقاں ہوتا ہے

یہی وہ منزل دشوار ہے جس منزل میں
ختم ہر مرحلۂ سود و زیاں ہوتا ہے

ہر قدم معرکۂ کرب و بلا ہے درپیش
ہر نفس سانحۂ مرگ جواں ہوتا ہے

ناز جس خاک وطن پر تھا مجھے آہ جگرؔ
اسی جنت پہ جہنم کا گماں ہوتا ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse