راز الفت کے عیاں رات کو سارے ہوتے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
راز الفت کے عیاں رات کو سارے ہوتے
by رشید لکھنوی

راز الفت کے عیاں رات کو سارے ہوتے
ہم کئی بار انہیں گھبرا کے پکارے ہوتے

شعلۂ حسن کو روکا ہے نقاب رخ نے
ابھی موتی ترے کانوں کے شرارے ہوتے

جانتے تھے کہ اتارو گے لحد میں ہم کو
میلے کپڑے ابھی تم نے نہ اتارے ہوتے

میرے مرنے کے رہے منتظر احسان کیا
کیوں سہی آپ نے تکلیف سدھارے ہوتے

سامنے میرے رقیبوں کو دکھائے ابرو
آپ نے اس سے تو خنجر مجھے مارے ہوتے

ساتھ آہوں کے شب غم میں جو دل اڑ جاتا
آبلے اوج یہ پاتے کہ ستارے ہوتے

دور سے بھی نہ ہوا یار کا دیدار نصیب
خیر باتیں نہ ہوئی تھیں تو اشارے ہوتے

عشق بازی نہ رہی دل جو گیا واہ رشیدؔ
دم نکل جاتا پہ ہمت تو نہ ہارے ہوتے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse