راحت کہاں نصیب تھی جو اب کہیں نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
راحت کہاں نصیب تھی جو اب کہیں نہیں
by برجموہن دتاتریہ کیفی

راحت کہاں نصیب تھی جو اب کہیں نہیں
وہ آسماں نہیں ہے کہ اب وہ زمیں نہیں

ہو جوش صدق دل میں تو راحت بغل میں ہو
قائم یہ آسمان رہے یا زمیں نہیں

حب وطن کو ہمت مردانہ چاہیئے
درکار آہ سینۂ اندوہ گیں نہیں

خون دل و جگر سے اسے سینچ اے عزیز
کشت وطن ہے یہ کوئی کشت جویں نہیں

حق گوئی کی صدا تھی نہ رکنی نہ رک سکی
کب وار کی سنانیں گلوں میں چبھیں نہیں

داغ غم وطن ہے نشان عزیز خلق
دل پر نہ جس کا نقش ہو یہ وہ نگیں نہیں

جنگ وطن میں صدق کے ہتھیار کا ہے کام
درکار اس میں اسلحۂ آہنیں نہیں

گھر بار تیرا پر تو کسی چیز کو نہ چھیڑ
یہ بات تو حریفوں کی کچھ دل نشیں نہیں

جس بات پر عزیز اڑے ہیں اڑے رہیں
کہنے دیں ان کو اونچے گلے سے نہیں نہیں

کیا جانے دل جگر کو مرے جو یہ کہہ گیا
دامن بھی تار تار نہیں آستیں نہیں

معبود ہے وطن ہوں پرستار اسی کا میں
دیر و حرم میں جو جھکے یہ وہ جبیں نہیں

کیفیؔ اسی سے خیریت ہند میں ہے دیر
حب وطن کا جوش کہیں ہے کہیں نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse