رات کے پچھلے پہر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رات کے پچھلے پہر
by شکیب جلالی

شام ہی سے تھی فضا میں کسی جلتے ہوئے کپڑے کی بساند
اور ہوا چلتی تھی جیسے
اس کے زخمی ہوں قدم
دیدۂ مہر نے ان جانے خطر سے مڑ کر
جاتے جاتے بڑی حسرت سے کئی بار زمیں کو دیکھا
لیکن اس سبز لکیر
اس درختوں کی ہری باڑ کے پار
کچھ نہ پایا کوئی شعلہ نہ شرار
اور پھر رات کے تنور سے ابلا پانی
تیرگیوں کا سیہ فوارہ
دیکھتے دیکھتے تصویر ہر ایک چیز کی دھندلانے لگی
دور تک کالے سمندر کی ہمکتی لہریں
ہانپتے سینوں کی مانند کراں تا کراں پھیل گئیں
اور جب رات پڑی
سسکیاں بن گئیں جھونکوں کی صدا
دم بخود ہو گئے اس وقت در و بام
جیسے آہٹ کسی طوفاں کی سنا چاہتے ہوں
آنکھیں مل مل کے چراغوں کی لوؤں نے دیکھا
لیکن اس سبز لکیر
اس درختوں کی ہری باڑ کے پار
کچھ نہ پایا کوئی شعلہ نہ شرار
رات کے پچھلے پہر
ناگہاں نیند سے چونکی جو زمین
اس کے ہونٹوں پہ تھی غم ناک کراہ
کرب انگیز کراہ
اس کے سینے پہ رواں
بوٹ لوہے کے گمکتے ہوئے بوٹ
جس طرح کانچ کی چادر پہ لڑکھتی ہوئی پتھر کی سلیں
ہر قدم ایک نئی چیخ جنم لیتی تھی
خاک سے داد ستم لیتی تھی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse