رات کی بات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رات کی بات
by مختار صدیقی

چوڑیاں بجتی ہیں چھاگل کی صدا آتی ہے
فرط بیتابی سے اٹھ اٹھ کے نظر بیٹھ گئی
تھام کر آس ہر آہٹ پہ جگر بیٹھ گئی
میرا غم خانہ عبارت رہا تاریکی سے
موج مہتاب کہاں خاک بہ سر بیٹھ گئی
شبنم آلود ہوا جاتا ہے شب کا داماں
تارے چمکے ہیں کہ اب گرد سفر بیٹھ گئی
بھیگتی رات نہا کر مرے اشک خوں میں
جانے کو اٹھی ہی تھی اٹھ کے مگر بیٹھ گئی

اس نے دیکھا کہ مری رانی لجاتی آئی
آنکھیں ملتی ہوئی فتنوں کو جگاتی آئی

سر سے ڈھلکا ہوا آنچل شکن آلود لباس
چھڑی آنکھوں میں مچلتی ہوئی نیندوں کی جھلک
سو گئی تھی ذرا خود سب کو سلاتے شاید
نیند کچی تھی کہ دی وعدے نے دل پر دستک
چونک کر اٹھی تو دیکھا کہ ستارے بن کر
اوج افلاک پہ ہے مانگ کی افشاں کی دمک
شیشۂ مہ سے چھلک کر مئے تند و بے درد
اس کے ماتھے سے چرا لیتی ہے سونے کی ڈلک
چوڑیاں ہاتھوں میں تھامے چلی ہولے ہولے
کر دے غمازی مبادا کہیں چھاگل کی چھنک
سرخی ٹیکے کی جبیں پر ذرا پھیلی پھیلی
جس طرح جام سے کچھ تھوڑی سی مے جائے چھلک
"زلفیں یوں چہرے پہ بکھری ہوئی مانگیں تھیں دل
جس طرح ایک کھلونے پہ مٹیں دو بالک"
جس طرح غم خانے پہ پہنچی تو کچھ آیا جو خیال
چوڑیاں چھوڑ دیں چھاگل بھی ہنسی چھانا چھنک

فکر ہے آئی تو ہے نیند کی گوماتی ہے
چوڑیاں بجتی ہیں چھاگل کی صدا آتی ہے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse