رات بھر جو سامنے آنکھوں کے وہ مہ پارہ تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رات بھر جو سامنے آنکھوں کے وہ مہ پارہ تھا
by بخش ناسخ

رات بھر جو سامنے آنکھوں کے وہ مہ پارہ تھا
غیرت مہتاب اپنا دامن نظارہ تھا

بن گئے گرداب سیل اشک جائے گرد باد
ابر تر کی طرح میں جس دشت میں آوارہ تھا

تو نے آنکھیں پھیر لیں یاں کام آخر ہو گیا
طائر جاں پائے بند رشتۂ نظارہ تھا

شب ترے پرتو سے لبریز لطافت تھا چمن
ہر گل شبو سے جاری نور کا فوارہ تھا

مجھ کو دم لینے کی بھی فرصت نہ دنیا میں ملی
روز مولد شادیانہ کوچ کا نقارا تھا

خرمی ہوتی ہے بے دردوں کو سیر باغ میں
ہم نے جس گل پر نظر کی اک گل صد پارہ تھا

خواب میں بھی یار تک ممکن نہ تھا دخل رقیب
جن دنوں اپنا خیال اخبار کا ہرکارہ تھا

شب نظر کی میں نے فرقت میں جو سوئے آسماں
اژدہا تھی کہکشاں عقرب ہر اک سیارہ تھا

اے اجل دی تو نے بار جسم سے آ کر نجات
کب سے میری پیٹھ پر یہ خاک کا پشتارہ تھا

خوف سب جاتا رہا دل سے عذاب ہجر کا
نقد جاں دینا گناہ عشق کا کفارہ تھا

کہتے ہیں مارا گیا وہ جرم تیغ ناز سے
کوچۂ قاتل میں ناسخؔ نام جو بیچارہ گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse