رات

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
رات
by اسماعیل میرٹھی

گیا دن ہوئی شام آئی ہے رات
خدا نے عجب شے بنائی ہے رات
نہ ہو رات تو دن کی پہچان کیا
اٹھائے مزہ دن کا انسان کیا
ہوئی رات خلقت چھٹی کام سے
خموشی سی چھائی سر شام سے
لگے ہونے اب ہاٹ بازار بند
زمانے کے سب کار بہوار بند
مسافر نے دن بھر کیا ہے سفر
سر شام منزل پہ کھولی کمر
درختوں کے پتے بھی چپ ہو گئے
ہوا تھم گئی پیڑ بھی سو گئے
اندھیرا اجالے پہ غالب ہوا
ہر اک شخص راحت کا طالب ہوا
ہوئے روشن آبادیوں میں چراغ
ہوا سب کو محنت سے حاصل فراغ
کسان اب چلا کھیت کو چھوڑ کر
کہ گھر میں کرے چین سے شب بسر
غریب آدمی جو کہ مزدور ہیں
مشقت سے جن کے بدن چور ہیں
وہ دن بھر کی محنت کے مارے ہوئے
وہ ماندے تھکے اور ہارے ہوئے
نہایت خوشی سے گئے اپنے گھر
ہوئے بال بچے بھی خوش دیکھ کر
گئے بھول سب کام دھندھے کا غم
سویرے کو اٹھیں گے اب تازہ دم
کہاں چین یہ بادشہ کو نصیب
کہ جس بے غمی سے ہیں سوتے غریب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse