ذکر جاناں کر جو تجھ سے ہو سکے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ذکر جاناں کر جو تجھ سے ہو سکے
by حاتم علی مہر

ذکر جاناں کر جو تجھ سے ہو سکے
واعظ احساں کر جو تجھ سے ہو سکے

راز دل ظاہر نہ ہو اے دود آہ
داغ پنہاں کر جو تجھ سے ہو سکے

پھونکتا ہے مجھ کو یہ سوز دروں
چشم گریاں کر جو تجھ سے ہو سکے

اے مسیحا مجھ کو ہے آزار عشق
میرا درماں کر جو تجھ سے ہو سکے

قیس کو روتا ہوں اے دشت جنوں
فکر داماں کر جو تجھ سے ہو سکے

چپ ہے کیوں او بت خدا کی واسطے
کچھ تو ہوں ہاں کر جو تجھ سے ہو سکے

دل تو اس پہ آج صدقے ہو گیا
تو بھی اے جاں کر جو تجھ سے ہو سکے

لا مغل کی تیغ ابرو کا جواب
عزم‌ صفہاں کر جو تجھ سے ہو سکے

راز پوشی میری دود آہ کی
دود قلیاں کر جو تجھ سے ہو سکے

کھیت دکھلا مجھ کو اے شمشیر یار
کار دہقاں کر جو تجھ سے ہو سکے

خرمن ماہ درخشاں کو اڑا
کار دہقاں کر جو تجھ سے ہو سکے

تا بہ کے یاد رخ جاناں دلا
حفظ قرآں کر جو تجھ سے ہو سکے

وہ پری میری مسخر ہو یہ کام
اے سلیماں کر جو تجھ سے ہو سکے

ایک دن دیوار ہی پھاندوں گا میں
خیر درباں کر جو تجھ سے ہو سکے

یوں ہی ظاہر ہو شب فرقت کی صبح
داغ پنہاں کر جو تجھ سے ہو سکے

اے فرنگن خانۂ ویراں مرا
انگلستاں کر جو تجھ سے ہو سکے

کر مرا گھر فیض مقدم سے بہشت
مجھ کو رضواں کر جو تجھ سے ہو سکے

جھڑکیاں دی گالیاں دی دل دکھا
اے مری جاں کر جو تجھ سے ہو سکے

نزع میں تو جائے شرب مے پلا
ساقی احساں کہ جو تجھ سے ہو سکے

تو ہی تربت پر مری چادر چڑھا
ماہ تاباں کر جو تجھ سے ہو سکے

اے دل نالاں کہاں تک شور و غل
ضبط افغاں کر جو تجھ سے ہو سکے

مہرؔ یوں فکر پریشاں تا بہ کے
جمع دیواں کر جو تجھ سے ہو سکے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse