ذوق الفت اب بھی ہے راحت کا ارماں اب بھی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ذوق الفت اب بھی ہے راحت کا ارماں اب بھی ہے
by بشیر الدین احمد دہلوی

ذوق الفت اب بھی ہے راحت کا ارماں اب بھی ہے
دل پریشاں روح ترساں چشم گریاں اب بھی ہے

کب سنبھالے سے سنبھلتا ہے دل پر اضطراب
آہ سوزاں لب پر اب بھی سینہ بریاں اب بھی ہے

سعی کوشش کے لیے میدان ہے اب بھی فراخ
عزم راسخ کی ضرورت ہم کو ہاں ہاں اب بھی ہے

تخم میں روئیدگی ہر نخل میں بالیدگی
موسم سرما و گرما باد و باراں اب بھی ہے

خلق میں موجود ہیں اب بھی وہی لعل و گہر
تشنہ کامیٔ صدف کو ابر نیساں اب بھی ہے

شام بھی ہے صبح بھی ہے اور دن بھی رات بھی
ماہ تاباں اب بھی ہے مہر درخشاں اب بھی ہے

عاشق و معشوق بھی ہیں وصل و ہجر و رشک بھی
مہر الفت تیغ و خنجر تیر پیکاں اب بھی ہے

ہے وہی دیوانگی اب بھی وہی شوریدگی
جیب و دامن ہدیۂ خار بیاباں اب بھی ہے

شوق و ذوق اب بھی ہے باقی مردہ دل ہم ہیں تو ہیں
اپنے دل کو حسرت سیر گلستاں اب بھی ہے

عشق کی صورت جو بدلے تو ہو عاشق بھی کچھ اور
یہ جفا و جور کا ہر وقت خواہاں اب بھی ہے

آ گئی پیری مگر اب تک ہے تو محو خیال
ہم سبق طفلوں کا تو طفل دبستاں اب بھی ہے

گرمئ محفل وہی ہے جمع ہیں احباب بھی
ہستیٔ پروانہ و شمع شبستاں اب بھی ہے

غیرممکن ہے بدل جائے کبھی قانون حق
حکم یزداں اب بھی ہے اجرائے فرماں اب بھی ہے

کیوں مسلمانوں نے بدلا حال اپنی قوم کا
تھا جو قرآں بس وہی موجود قرآں اب بھی ہے

قشقہ بالائے جبیں زنار ہے بالائے دوش
یہ بتا ایمان سے کیا تو مسلماں اب بھی ہے

اتقا و زہد سے دل بستگی باقی نہیں
دعویٰ اسلام جیسا پہلے تھا ہاں اب بھی ہے

کھو دیئے ایام پیری نے تیرے ہوش و حواس
اے بشیرؔ بے نوا کچھ دل میں ارماں اب بھی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse