ذلت ہے جو پھیلائے بشر پیش دگر ہاتھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ذلت ہے جو پھیلائے بشر پیش دگر ہاتھ
by دیا شنکر نسیم

ذلت ہے جو پھیلائے بشر پیش دگر ہاتھ
یا رب نہ کبھی ہاتھ کا ہو دست نگر ہاتھ

پنجہ کریں خورشید سے بیداروں کی پلکیں
فرقت کی شب آ جائے جو دامان سحر ہاتھ

ہیں صاحب سر پنجہ رئیسوں کو نچاتے
سر پر جو پڑے چوٹ تو ہوتا ہے سپر ہاتھ

جی میں ہے کہوں ان سے کہ ہوں دست گرفتہ
وہ سن کے خجل ہوں جو کہیں لاؤ ادھر ہاتھ

کیا دزد حنا ہاتھ لگا سیم بروں کو
دل ہاتھ سے لے جاتا ہے چوری سے وہ ہر ہاتھ

خورشید کے پنجے سے اشارہ ہے کہ عاقل
اللہ کی جانب کو اٹھا وقت سحر ہاتھ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse