ذرا سوچ کر اے جفا کرنے والے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ذرا سوچ کر اے جفا کرنے والے
by بیتاب عظیم آبادی

ذرا سوچ کر اے جفا کرنے والے
کہیں جی نہ چھوڑیں وفا کرنے والے

گلہ کچھ نہیں مجھ کو واعظ سے لیکن
یہ کون آپ کا تذکرہ کرنے والے

گھمنڈ ان کو اللہ رے اتنا جفا کا
تو کیا مر گئے اب وفا کرنے والے

بڑے بے مروت بڑے بے وفا ہو
ہمیشہ بہانہ نیا کرنے والے

گلی میں تری سر بکف ہو کے آئیں
کہاں ہیں مرا سامنا کرنے والے

وہ بے باک چتون یہی کہہ رہی ہے
کسی سے نہیں ہم وفا کرنے والے

شہیدان الفت نہ خوش ہوں تڑپ کر
وہ اس پر نہیں اعتنا کرنے والے

یہ کہتا ہے پروانے کا جل کے مرنا
وفا کرتے ہیں یوں وفا کرنے والے

سمجھتے ہیں آساں ابھی ان کا ملنا
بہت دور ہیں حوصلہ کرنے والے

نقاب ان کی جس وقت سرکے گی رخ سے
قیامت کریں گے حیا کرنے والے

دم نزع آخر نکل آئے آنسو
کہاں جا کے چوکے وفا کرنے والے

زباں پر مری راز دل اب تو آیا
مری شرم رکھ لے حیا کرنے والے

دوا سے تو بیمار کچھ اور الجھا
مرض ہی نہ سمجھے دوا کرنے والے

خموشی مری لاش کی کہہ رہی ہے
جفا سہتے ہیں یوں وفا کرنے والے

گدا کون بیتاب سا اس گلی میں
ہیں یوں تو بہت سے صدا کرنے والے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse