ذرا بھی دم ترے بیمار ناتواں میں نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
ذرا بھی دم ترے بیمار ناتواں میں نہیں
by صفدر مرزا پوری

ذرا بھی دم ترے بیمار ناتواں میں نہیں
مکاں میں یوں ہے کہ جیسے کوئی مکاں میں نہیں

وہ چھیڑ چھیڑ کے پوچھیں نہ دل کے درد کا حال
کہو زباں سے یہ طاقت مری زباں میں نہیں

چمن میں کس کے لیے بجلیاں تڑپتی ہیں
گل آشیاں میں نہیں شاخ آشیاں میں نہیں

تمہارے در سے اٹھاتا ہے کیوں ہمیں درباں
کچھ ایسے لعل لگے سنگ آستاں میں نہیں

میں سر بکف ہوں وہ خنجر بکف ہیں مقتل میں
اجل سے کہہ دو کہ اب دیر امتحاں میں نہیں

کریں گے وہ نگہ ناز سے ہدف دل کو
چڑھی کمان ہے ناوک مگر کمان میں نہیں

جگر نے جی جو چرایا تو دل پکار اٹھا
شریک حال مرا کوئی امتحاں میں نہیں

نظر نہ کی مرے حال تباہ پر اس نے
یہ کہہ دیا کہ اثر کچھ مری فغاں میں نہیں

مثل یہ ایک زمانے میں سنتے آئے ہیں
نہ ہو مکین تو رونق کوئی مکاں میں نہیں

جو پھول آج کف گل فروش میں دیکھا
وہ باغباں کے بھی اب وہم میں گماں میں نہیں

یہ لطف پوچھئے کچھ آپ مرنے والوں سے
جناب خضر مزا عمر جاوداں میں نہیں

سنا کہ قصۂ صفدرؔ ہے درد سے خالی
مزے کی چیز یہی تھی جو داستاں میں نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse