دے چکے دل تو پھر اب دل پر اجارا کیسا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دے چکے دل تو پھر اب دل پر اجارا کیسا
by کیفی کاکوروی

دے چکے دل تو پھر اب دل پر اجارا کیسا
ہم سمجھتے ہیں ہمارا ہے ہمارا کیسا

ہر ادا بانکی ہے ہر ناز سے پیارا کیسا
دل میں رکھ لیجئے انداز ہے سارا کیسا

سرخ پوشاک وہ پہنیں گے خدا خیر کرے
آج مریخ کا چمکے گا ستارا کیسا

مجھ کو یہ لطف کہ وہ شرط میں بوسے جیتے
ان کو یہ شرم کہ میں جیت میں ہارا کیسا

مردم چشم نے پلکوں سے بلائیں لے لیں
چشم بددور ہے وہ آنکھ کا تارا کیسا

میں لئے جاؤں شب وصل مکرر بوسے
تم کہے جاؤ کہ ہیں ہیں یہ دوبارا کیسا

دم نظارہ نظر باز تڑپ جاتے ہیں
شوخیٔ چشم سے ہے شوخ اشارہ کیسا

تجھ پہ مرتے ہیں ترے وعدوں پہ ہم جیتے ہیں
خالی باتوں کا بھی ہوتا ہے سہارا کیسا

صاف آغوش تمنا سے نکل جاتے ہو
وصل میں وصل سے کرتے ہو کنارا کیسا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse