دے محبت تو محبت میں اثر پیدا کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دے محبت تو محبت میں اثر پیدا کر
by بیخود دہلوی

دے محبت تو محبت میں اثر پیدا کر
جو ادھر دل میں ہے یا رب وہ ادھر پیدا کر

دود دل عشق میں اتنا تو اثر پیدا کر
سر کٹے شمع کی مانند تو سر پیدا کر

پھر ہمارا دل گم گشتہ بھی مل جائے گا
پہلے تو اپنا دہن اپنی کمر پیدا کر

کام لینے ہیں محبت میں بہت سے یا رب
اور دل دے ہمیں اک اور جگر پیدا کر

تھم ذرا اے عدم آباد کے جانے والے
رہ کے دنیا میں ابھی زاد سفر پیدا کر

جھوٹ جب بولتے ہیں وہ تو دعا ہوتی ہے
یا الٰہی مری باتوں میں اثر پیدا کر

آئینہ دیکھنا اس حسن پہ آسان نہیں
پیشتر آنکھ مری میری نظر پیدا کر

صبح فرقت تو قیامت کی سحر ہے یا رب
اپنے بندوں کے لیے اور سحر پیدا کر

مجھ کو روتا ہوا دیکھیں تو جھلس جائیں رقیب
آگ پانی میں بھی اے سوز جگر پیدا کر

مٹ کے بھی دوری گلشن نہیں بھاتی یا رب
اپنی قدرت سے مری خاک میں پر پیدا کر

شکوۂ درد جدائی پہ وہ فرماتے ہیں
رنج سہنے کو ہمارا سا جگر پیدا کر

دن نکلنے کو ہے راحت سے گزر جانے دے
روٹھ کر تو نہ قیامت کی سحر پیدا کر

ہم نے دیکھا ہے کہ مل جاتے ہیں لڑنے والے
صلح کی خو بھی تو اے بانئ شر پیدا کر

مجھ سے گھر آنے کے وعدے پر بگڑ کر بولے
کہہ دیا غیر کے دل میں ابھی گھر پیدا کر

مجھ سے کہتی ہے کڑک کر یہ کماں قاتل کی
تیر بن جائے نشانہ وہ جگر پیدا کر

کیا قیامت میں بھی پردہ نہ اٹھے گا رخ سے
اب تو میری شب یلدا کی سحر پیدا کر

دیکھنا کھیل نہیں جلوۂ دیدار ترا
پہلے موسیٰ سا کوئی اہل نظر پیدا کر

دل میں بھی ملتا ہے وہ کعبہ بھی اس کا ہے مقام
راہ نزدیک کی اے عزم سفر پیدا کر

ضعف کا حکم یہ ہے ہونٹ نہ ہلنے پائیں
دل یہ کہتا ہے کہ نالے میں اثر پیدا کر

نالے بیخودؔ کے قیامت ہیں تجھے یاد رہے
ظلم کرنا ہے تو پتھر کا جگر پیدا کر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse