دیں شیخ و برہمن نے کیا یار فراموش

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیں شیخ و برہمن نے کیا یار فراموش
by مرزا محمد رفیع سودا

دیں شیخ و برہمن نے کیا یار فراموش
یہ سبحہ فراموش وہ زنار فراموش

دیکھا جو حرم کو تو نہیں دیر کی وسعت
اس گھر کی فضا کر گیا معمار فراموش

بھولے نہ مرے دل سے مرا مصرع جانکاہ
نالہ نہ کرے مرغ گرفتار فراموش

دل سے نہ گئی آہ ہوس سیر چمن کی
اور ہم نے کیا رخنۂ دیوار فراموش

یا نالہ ہی کر منع تو یا گریہ کو ناصح
دو چیز نہ عاشق سے ہو یک بار فراموش

بھولا پھروں ہوں آپ کو اک عمر ہے لیکن
تجھ کو نہ کیا دل سے میں زنہار فراموش

دل درد سے کس طرح مرا خالی ہو سوداؔ
وہ ناشنو حرف میں گفتار فراموش

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse