دیکھ کر کرتے گلے میں سبز دھانی آپ کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیکھ کر کرتے گلے میں سبز دھانی آپ کی
by نظیر اکبر آبادی

دیکھ کر کرتے گلے میں سبز دھانی آپ کی
دھان کے بھی کھیت نے اب آن مانی آپ کی

کیا تعجب ہے اگر دیکھے تو مردہ جی اٹھے
چین نیفہ کی ڈھلک پیڑو پہ آنی آپ کی

ہم تو کیا ہیں دل فرشتوں کا بھی کافر چھین لے
ٹک جھلک دکھلا کے پھر انگیا چھپانی آپ کی

آ پڑی دو سو برس کے مردۂ بے جاں میں جان
جس کے اوپر دو گھڑی ہو مہربانی آپ کی

اک لپٹ کشتی کی ہم سے بھی تو کر دیکھو ذرا
ہاں بھلا ہم بھی تو جانیں پہلوانی آپ کی

چھلے غیروں پاس ہے وہ خاتم زر اے نگار
ہے ہمارے پاس بھی اب تک نشانی آپ کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse