دیکھ کر خوش رنگ اس گل پیرہن کے ہاتھ پاؤں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیکھ کر خوش رنگ اس گل پیرہن کے ہاتھ پاؤں
by وزیر علی صبا لکھنؤی

دیکھ کر خوش رنگ اس گل پیرہن کے ہاتھ پاؤں
پھول جاتے ہیں جوانان چمن کے ہاتھ پاؤں

جب نہ دیکھے چار دن اس گل بدن کے ہاتھ پاؤں
سوکھ کر کانٹا ہوئے اہل چمن کے ہاتھ پاؤں

ہم وہ میکش ہیں جو ہوتا ہے ہمیں رنج خمار
ٹوٹتے ہیں ساقی پیماں شکن کے ہاتھ پاؤں

ان کے مقتولوں کی قبریں اس قدر کھودی گئیں
تھک کے تختہ ہو گئے ہر گورکن کے ہاتھ پاؤں

آتی جاتی چوٹ بھی سچ ہی نظر آتی نہیں
آج کل چلتے ہیں کیا اس تیغ زن کے ہاتھ پاؤں

خاکساری کا مزا ہوتا جو اے خسرو تجھے
آب شیریں سے دھلاتا کوہ کن کے ہاتھ پاؤں

ہتھکڑی بیڑی بڑی زوروں سے پہنائی مجھے
اے جنوں شل ہو گئے اہل وطن کے ہاتھ پاؤں

کاٹ ڈالا دست شاخ گل کو پائے سرو کو
باغباں نے دیکھ کر اس گل بدن کے ہاتھ پاؤں

توسن مشکیں سے جب اس ترک کی تشبیہ دی
جوڑ میں ٹھہرے نہ آہوۓ ختن کے ہاتھ پاؤں

اپنے گیسوئے رسا سے یار رسی کی طرح
باندھتا ہے عاشق چاہ ذقن کے ہاتھ پاؤں

نوجوانان چمن اس گل سے تھراتے ہیں یوں
جس طرح کانپیں کسی پیر کہن کے ہاتھ پاؤں

شب کو گرم رقص ہوتا ہے جو وہ آتش مزاج
شمع ساں جلتے ہیں سارے انجمن کے ہاتھ پاؤں

ہتھکڑی بیڑی جو مجھ مجنوں کی اتری بعد مرگ
قبر میں ٹکڑے اڑائیں گے کفن کے ہاتھ پاؤں

ہو گئی خم ٹھونک کر دیو خزاں کے سامنے
کیا کسیلے ہیں جوانان چمن کے ہاتھ پاؤں

شاہد مقصد تمہیں بے واسطہ مل جائے گا
اے صباؔ چومو نہ شیخ و برہمن کے ہاتھ پاؤں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse