دیکھ لو تم خوئے آتش اے قمر شیشہ میں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیکھ لو تم خوئے آتش اے قمر شیشہ میں ہے  (1900) 
by حبیب موسوی

دیکھ لو تم خوئے آتش اے قمر شیشہ میں ہے
عکس داغ مہر کا اتنا اثر شیشہ میں ہے

لوگ کہتے ہیں ترے رخسار تاباں دیکھ کر
شمع ہے فانوس میں یا آب زر شیشہ میں ہے

رات دن رہتی ہے نیت بادۂ گل رنگ میں
یہ پری وہ ہے کہ جو آٹھوں پہر شیشہ میں ہے

ساعد سیمیں سے تیرے اس کو کیا نسبت بھلا
توبہ توبہ کب لطافت اس قدر شیشہ میں ہے

ہوتی ہے غرق عرق کیوں تو سوائے بوئے گل
اور کیا اے بلبل شوریدہ سر شیشہ میں ہے

مے کدہ تیرا رہے آباد خم کی خیر ہو
ہاں پلا دے مجھ کو ساقی جس قدر شیشہ میں ہے

خاک سے میری بھلا کیا وقت کا ہو امتیاز
ہر گھڑی بن کر بگولا منتشر شیشہ میں ہے

یہ گماں ہوتا ہے عکس مہر صہبا دیکھ کر
داغ الفت کو لئے خون جگر شیشہ میں ہے

حضرت واعظ نہ ایسا وقت ہاتھ آئے گا پھر
سب ہیں بے خود تم بھی پی لو کچھ اگر شیشہ میں ہے

کھنچ سکے ہرگز مصور سے نہ تمثال عدم
دیکھ لو تصویر جاناں تا کمر شیشہ میں ہے

تھوڑی تھوڑی راہ میں پی لیں گے گر کم ہے تو کیا
دور ہے مے خانہ یہ زاد سفر شیشہ میں ہے

مے پلا کر مجھ سے کہتے ہیں وہ ہو کر بے حجاب
چڑھ گئی آنکھوں پہ جب عینک نظر شیشہ میں ہے

کیوں نہ زور طبع سب احباب دکھلائیں حبیبؔ
امتحان حسن نظم یک دگر شیشہ میں ہے

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse