دیکھ عقد ثریا ہمیں انگور کی سوجھی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیکھ عقد ثریا ہمیں انگور کی سوجھی
by نظیر اکبر آبادی

دیکھ عقد ثریا ہمیں انگور کی سوجھی
کیوں بادہ کشاں ہم کو بھی کیا دور کی سوجھی

غش کھا کے گرا پہلے ہی شعلے کی جھلک سے
موسیٰ کو بھلا کہئے تو کیا طور کی سوجھی

ہم نے تو اسے دیکھ یہ جانا کہ پری ہے
پریوں نے جو دیکھا تو انہیں حور کی سوجھی

دیکھا جو نہانے میں وہ گورا بدن اس کا
بلور کی چوکی پہ جھلک نور کی سوجھی

سر پاؤں سے جب پھنس گئے اس زلف سیہ میں
جب ہم کو سیاہی شب دیجور کی سوجھی

جنت کے لئے شیخ جو کرتا ہے عبادت
کی غور جو خاطر میں تو مزدور کی سوجھی

مصنوع میں صانع نظر آوے تو نظیرؔ آہ
نزدیک کی پھر کیا ہے جہاں دور کی سوجھی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse