دیکھ دروازے سے مجھ کو وہ پری رو ہٹ گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیکھ دروازے سے مجھ کو وہ پری رو ہٹ گئی
by میر حسن دہلوی

دیکھ دروازے سے مجھ کو وہ پری رو ہٹ گئی
دیکھتے ہی اس کے میری جان بس چٹ پٹ گئی

تم ادھر دھوتے رہے منہ ہم ادھر روتے رہے
روتے دھوتے دو گھڑی بارے مزے سے کٹ گئی

گرد کلفت بسکہ چھائی دل سے تا آنکھوں تلک
نہر تھی جاری جو آنکھوں کی مرے سو پٹ گئی

جی ادا نے زلف نے دل ہوش غمزوں نے لیا
جنس ہستی اپنی سب غارت میں آ کر بٹ گئی

پردے ہی پردے میں دل کو خاک کر ڈالا مرے
اس ادا سے وہ پری منہ پر لیے گھونگھٹ گئی

زلف گر چھدری ہوئی تیرے تو مت کھا پیچ و تاب
کیا ہوا از بس اٹھائے بوجھ دل کے لٹ گئی

کل جو میرا خوش نگہ گزرا چمن سے اے حسنؔ
موند لی بادام نے آنکھ اور نرگس کٹ گئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse