دیکھ تو دل کہ جاں سے اُٹھتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search

دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے

یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے


گور کس دل جلے کی ہے یہ فلک

شعلہ اک صبح یاں سے اٹھتا ہے


خانہء دل سے زنہار نہ جا

کوئی ایسے مکاں سے اٹھتا ہے


نالہ سر کھینچتا ہے جب میرا

شور ایک آسماں سے اٹھتا ہے


لڑتی ہے اُس کی چشمِ شوخ جہاں

ایک آشوب واں سے اٹھتا ہے


سدھ لے گھر کی بھی شعلہء آواز

دود کچھ آشیاں سے اٹھتا ہے


بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو

جو ترے آستاں سے اٹھتا ہے


یوں اُٹھے آہ اس گلی سے ہم

جیسے کوئی جہاں سے اٹھتا ہے


عشق میر اک بھاری پتھر ہے

کب یہ تجھ ناتواں سے اٹھتا ہے