دیکھ او قاتل بسر کرتے ہیں کس مشکل سے ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیکھ او قاتل بسر کرتے ہیں کس مشکل سے ہم
by نسیم دہلوی

دیکھ او قاتل بسر کرتے ہیں کس مشکل سے ہم
چارہ گر سے درد نالاں درد سے دل دل سے ہم

ہائے کیا بے خود کیا ہے غفلت امید نے
حال دل کہتے ہیں اپنا پھر اسی قاتل سے ہم

رشک اعدا نے کیے روشن بدن میں استخواں
شمع محفل ہو کے اٹھے آپ کی محفل سے ہم

اس کو کہتے ہیں وفاداری کہ بعد از قتل بھی
داغ خوں ہو کر نہ چھوٹے دامن قاتل سے ہم

طول تھی راہ عدم گھبرا کے سوئے قبر میں
پاؤں پھیلائے تھکے جب دورئ منزل سے ہم

جسم روشن سے نظر آتے ہیں جلوے روح کے
حسن لیلیٰ دیکھتے ہیں پردۂ محمل سے ہم

خالی از احساں نہیں یہ بھی کہ وقت اضطراب
خوش تو ہو جاتے ہیں تیرے وعدۂ باطل سے ہم

آؤ آپس میں سمجھ لیں غیر کاہے کو سنے
تم کہو دل سے ہمارے کچھ تمہارے دل سے ہم

سن کے رو دیتے ہیں اکثر صورت زخم جگر
آپ شرماتے ہیں اپنے خندۂ باطل سے ہم

رشک ہے حسرت پہ اس کی دل میں آتا ہے یہی
اپنے قالب کو بدل لیں قالب بسمل سے ہم

سینۂ دل میں ہجوم داغ حسرت ہے نسیمؔ
پھول چن لیتے ہیں اپنے گلشن حاصل سے ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse