دیکھ اس پری سے کیجئے کیا اب تو جا لگی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیکھ اس پری سے کیجئے کیا اب تو جا لگی
by میر محمدی بیدار

دیکھ اس پری سے کیجئے کیا اب تو جا لگی
چھوٹی ہی کوئی بات ہے پھر یہ بلا لگی

اس لب پہ دیکھتے ہی سے وہ پان کی دھڑی
شام و شفق ان آنکھوں میں کب خوش نما لگی

یہ دسترس کسے کہ کرے اس کو دست بوس
سو منتوں سے پاؤں میں اس کے حنا لگی

میں کیا کیا کہ مجھ کو نکالے ہے وہ صنم
اے اہل بزم کوئی تو بولو خدا لگی

کس طرح حال دل کہوں اس گل سے باغ میں
پھرتی ہے اس کے ساتھ تو ہر دم صبا لگی

اس درد دل کا پوچھئے کس سے علاج جا
اپنی سی کر چکے پہ نہ کوئی دوا لگی

آیا جو مہرباں ہو ستم گر تو اس طرف
کس وقت کی نہ جانئے تجھ کو دعا لگی

اتنا تو وہ نہیں ہے کہ بیدارؔ دیجے دل
کیا جانے پیاری اس کی تجھے کیا ادا لگی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse