دیکھیں کیا اب کے اسیری ہمیں دکھلاتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیکھیں کیا اب کے اسیری ہمیں دکھلاتی ہے
by مرزا محمد تقی ہوسؔ

دیکھیں کیا اب کے اسیری ہمیں دکھلاتی ہے
لوگ کہتے ہیں کہ پھر فصل بہار آتی ہے

غش چلا آتا ہے اور آنکھ مندی جاتی ہے
ہم کو کیا کیا مری بے طاقتی دکھلاتی ہے

کیا سنا اس نے کہیں رخصت گل کا مذکور
عندلیب آج قفس میں پڑی چلاتی ہے

طائر روح کو پرواز کا ہر دم ہے خیال
قفس تن میں مری جان یہ گھبراتی ہے

دیکھ روتے مجھے ہنس ہنس کہے جانا ہر دم
جان سے مجھ کو تو تیری یہ ادا بھاتی ہے

بزم ہستی میں تو بیٹھا ہے ہوسؔ کیا غافل
کچھ جو کرنا ہے تو کر عمر چلی جاتی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse