دیکھیں محشر میں ان سے کیا ٹھہرے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیکھیں محشر میں ان سے کیا ٹھہرے
by آرزو لکھنوی

دیکھیں محشر میں ان سے کیا ٹھہرے
تھے وہی بت وہی خدا ٹھہرے

ٹھہرے اس در پہ یوں تو کیا ٹھہرے
بن کے زنجیر بے صدا ٹھہرے

سانس ٹھہرے تو دم ذرا ٹھہرے
تیز آندھی میں شمع کیا ٹھہرے

زندگانی ہے اک نفس کا شمار
بے ہوا یہ چراغ کیا ٹھہرے

جس کو تم لا دوا بتاتے تھے
تمہیں اس درد کی دوا ٹھہرے

عشق کا جرم سہل کام نہیں
کہ ہر اک لائق سزا ٹھہرے

بیم و امید کی کشاکش میں
اک دوراہے پہ جیسے آ ٹھہرے

روتی آنکھیں جھلک نہ دیکھ سکیں
بہتے زخموں پہ کیا دوا ٹھہرے

آرزوؔ وہ ہمیں نصیب کہاں
کان تک جا کے جو صدا ٹھہرے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse