دیکھو تو کس ادا سے رخ پر ہیں ڈالی زلفیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیکھو تو کس ادا سے رخ پر ہیں ڈالی زلفیں
by آفتاب شاہ عالم ثانی

دیکھو تو کس ادا سے رخ پر ہیں ڈالی زلفیں
جوں مار ڈستی ہیں دل دلبر کی کالی زلفیں

چاہے ہیں جس نہ تس کو باندھیں گرہ میں اپنی
دل لینے کو بلا ہیں یہ پیچ والی زلفیں

مثل سلاسل اس میں عقدے ہزارہا ہیں
ٹک پیچ و تاب سے میں دیکھیں نہ خالی زلفیں

مار سیہ جدا کب رہتا ہے گنج زر سے
ہوتی نہیں ہیں اس کے رخ سے نرالی زلفیں

تھی رات جو یکایک دن دیکھنے لگے سب
جب آفتابؔ اس نے رخ سے اٹھا لی زلفیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse