دیکھو انساں خاک کا پتلا بنا کیا چیز ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیکھو انساں خاک کا پتلا بنا کیا چیز ہے
by بہادر شاہ ظفر

دیکھو انساں خاک کا پتلا بنا کیا چیز ہے
بولتا ہے اس میں کیا وہ بولتا کیا چیز ہے

روبرو اس زلف کے دام بلا کیا چیز ہے
اس نگہ کے سامنے تیر قضا کیا چیز ہے

یوں تو ہیں سارے بتاں غارتگر ایمان و دیں
ایک وہ کافر صنم نام خدا کیا چیز ہے

جس نے دل میرا دیا دام محبت میں پھنسا
وہ نہیں معلوم مج کو ناصحا کیا چیز ہے

ہووے اک قطرہ جو زہراب محبت کا نصیب
خضر پھر تو چشمۂ آب بقا کیا چیز ہے

مرگ ہی صحت ہے اس کی مرگ ہی اس کا علاج
عشق کا بیمار کیا جانے دوا کیا چیز ہے

دل مرا بیٹھا ہے لے کر پھر مجھی سے وہ نگار
پوچھتا ہے ہاتھ میں میرے بتا کیا چیز ہے

خاک سے پیدا ہوئے ہیں دیکھ رنگا رنگ گل
ہے تو یہ ناچیز لیکن اس میں کیا کیا چیز ہے

جس کی تجھ کو جستجو ہے وہ تجھی میں ہے ظفرؔ
ڈھونڈتا پھر پھر کے تو پھر جا بجا کیا چیز ہے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.