دیکھوں ہوں یوں میں اس ستم ایجاد کی طرف

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیکھوں ہوں یوں میں اس ستم ایجاد کی طرف
by مرزا محمد رفیع سودا

دیکھوں ہوں یوں میں اس ستم ایجاد کی طرف
جوں صید وقت ذبح کے صیاد کی طرف

نے دانہ ہم قیاس کیا نے لحاظ دام
دھنس گئے قفس میں دیکھ کے صیاد کی طرف

ثابت نہ ہووے خون مرا روز باز پرس
بولیں گے اہل حشر سو جلاد کی طرف

پتھر کی لیکھ تھا سخن اس کا ہزار حیف
بولی زبان تیشہ نہ فرہاد کی طرف

طرہ کے تیرے واسطے صد چوب شانہ دار
قمری گئی ہے کاٹنے شمشاد کی طرف

سوداؔ تو اس غزل کو غزل در غزل ہی کہہ
ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرف

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse