دیکھنے میں ہیں گرچہ دو پر ہیں یہ دونوں یار ایک
دیکھنے میں ہیں گرچہ دو پر ہیں یہ دونوں یار ایک
وضع میں گو ہوئی دو سر تیغ ہے ذوالفقار ایک
ہم سخن و ہم زباں حضرت قاسم و طپاں
ایک طیش کا جانشیں درد کا یادگار ایک
نقد سخن کے واسطے ایک عیار آگہی
شعر کے فن کے واسطے مایۂ اعتبار ایک
ایک وفا و مہر میں تازگی بساط دہر
لطف و کرم کے باب میں زینت روزگار ایک
گل کدۂ تلاش کو ایک ہے رنگ ایک بو
ریختے کے قماش کو پود ہے ایک تار ایک
مملکت کمال میں ایک امیر نامور
عرصۂ قیل و قال میں خسرو نامدار ایک
گلشن اتفاق میں ایک بہار بے خزاں
میکدۂ وفاق میں بادۂ بے خمار ایک
زندۂ شوق شعر کو ایک چراغ انجمن
کشتۂ ذوق شعر کو شمع سر مزار ایک
دونوں کے دل حق آشنا دونوں رسول پر فدا
ایک محب چار یار عاشق ہشت و چار ایک
جان وفا پرست کو ایک شمیم نو بہار
فرق ستیزہ مست کو ابر تگرگ بار ایک
لایا ہے کہہ کے یہ غزل شائبہ ریا سے دور
کرکے دل و زبان کو غالبؔ خاکسار ایک
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |