دیکھنا اس کی تجلی کا جسے منظور ہے
دیکھنا اس کی تجلی کا جسے منظور ہے
سنگ ریزہ بھی نظر میں اس کی کوہ طور ہے
ہم سے ہم چشمی انا الحق کو کہاں مقدور ہے
اشک ہر یک دار مژگاں پر مرے منصور ہے
نحن اقرب کی نہیں ہے رمز سے تو آشنا
ورنہ وہ نزدیک ہے تو آپ اس سے دور ہے
ہجر کی شب کو اگر کاٹے تو پھر ہے روز وصل
نیش کے پردے میں دیکھا نوش بھی مستور ہے
کیا ہوا واعظ کرے ہے شور جوں طبل تہی
وہ سر بے مغز گویا کانسۂ طنبور ہے
آج ہمیں اور ہی نظر آتا ہے کچھ صحبت کا رنگ
بزم ہے مخمور اور ساقی نشے میں چور ہے
روز و شب رہتا ہے تیری یاد میں عاشق کا دل
گو مقصر ہے تری خدمت سے گو معذور ہے
آرزو ہے رات اندھیری میں کہ آوے ماہ رو
جس کے آگے روشنائی شمع کی بے نور ہے
خاکساروں کو کبھو لاتا نہیں خاطر میں وہ
حسن کی دولت پر اپنے اس قدر مغرور ہے
عشق ہے دار الشفا اور درد ہے اس کا طبیب
جو نہیں اس مرض کا طالب سدا رنجور ہے
اب تلک حاتمؔ سے تو واقف نہیں افسوس یار
شاعری کے فن میں وہ آفاق میں مشہور ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |