دیکھنا اس کی تجلی کا جسے منظور ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیکھنا اس کی تجلی کا جسے منظور ہے
by شیخ ظہور الدین حاتم

دیکھنا اس کی تجلی کا جسے منظور ہے
سنگ ریزہ بھی نظر میں اس کی کوہ طور ہے

ہم سے ہم چشمی انا الحق کو کہاں مقدور ہے
اشک ہر یک دار مژگاں پر مرے منصور ہے

نحن اقرب کی نہیں ہے رمز سے تو آشنا
ورنہ وہ نزدیک ہے تو آپ اس سے دور ہے

ہجر کی شب کو اگر کاٹے تو پھر ہے روز وصل
نیش کے پردے میں دیکھا نوش بھی مستور ہے

کیا ہوا واعظ کرے ہے شور جوں طبل تہی
وہ سر بے مغز گویا کانسۂ طنبور ہے

آج ہمیں اور ہی نظر آتا ہے کچھ صحبت کا رنگ
بزم ہے مخمور اور ساقی نشے میں چور ہے

روز و شب رہتا ہے تیری یاد میں عاشق کا دل
گو مقصر ہے تری خدمت سے گو معذور ہے

آرزو ہے رات اندھیری میں کہ آوے ماہ رو
جس کے آگے روشنائی شمع کی بے نور ہے

خاکساروں کو کبھو لاتا نہیں خاطر میں وہ
حسن کی دولت پر اپنے اس قدر مغرور ہے

عشق ہے دار الشفا اور درد ہے اس کا طبیب
جو نہیں اس مرض کا طالب سدا رنجور ہے

اب تلک حاتمؔ سے تو واقف نہیں افسوس یار
شاعری کے فن میں وہ آفاق میں مشہور ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse