دیکھا نہ ہم نے رشک سے اغیار کی طرف

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیکھا نہ ہم نے رشک سے اغیار کی طرف
by داغ دہلوی

دیکھا نہ ہم نے رشک سے اغیار کی طرف
منہ پھیر بیٹھے بزم میں دیوار کی طرف

سیل سرشک اپنے ہی گھر میں بہائیں گے
کیوں جائے یہ بلا تری دیوار کی طرف

بیٹھے بٹھائے آئے جو شامت تو کیا علاج
دل نے کہا کہ آؤ چلیں یار کی طرف

چاہی تھی داد ہم نے دل صاف کی مگر
آئینہ ہو گیا ترے رخسار کی طرف

تصویر کو بھی اس کی یہاں تک غرور ہے
دیکھے کبھی نہ طالب دیدار کی طرف

تقصیر مے فروش کی اے محتسب نہیں
یہ چیز اڑ کے جاتی ہے مے خوار کی طرف

دی جان کس خوشی سے تہ تیغ داغؔ نے
لب پر تبسم اور نظر یار کی طرف

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse