دیکھا ادھر کسی نے ادھر میں نے آہ کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیکھا ادھر کسی نے ادھر میں نے آہ کی
by صفدر مرزا پوری

دیکھا ادھر کسی نے ادھر میں نے آہ کی
تڑپا رہی ہے قلب کو بجلی نگاہ کی

بن آئے پھر تو حشر میں ہر عذر خواہ کی
دو اپنے ہاتھ سے جو سزا تم گناہ کی

اب میں یوں ہی لحد میں بھی بدلوں گا کروٹیں
میرا تو دم نکلتا تھا کیوں تم نے آہ کی

سمجھے نہ بچپنے سے کہ کس پر پڑے گا تیر
آئینہ دیکھنے میں بھی ترچھی نگاہ کی

اک اور بھی رفیق مرا چھوٹنے کو ہے
ہاتھوں سے دل پکڑ لیا جب میں نے آہ کی

وہ اور رخ پہ زلف کو بکھرائے آئے ہیں
تقدیر دیکھیے مرے روز سیاہ کی

میں مر گیا تھا خندۂ زخم جگر سے بھی
ظالم ہنسی میں جان گئی بے گناہ کی

کچھ آپ کا گلہ تھا نہ شکوہ عدو کا تھا
شرما کے کیوں حضور نے نیچی نگاہ کی

آنکھوں ہی میں رہے گا یہ صفدرؔ کا خون ہے
تم آئنے میں دیکھو تو سرخی نگاہ کی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse