Jump to content

دیوتاؤں کا صدقہ

From Wikisource
دیوتاؤں کا صدقہ
by قاضی عبدالغفار
319631دیوتاؤں کا صدقہقاضی عبدالغفار

اشخاص:

کلاڈیس بالبو: ایک رومی امیر جو اپنی بیوی کی بدچلنی سےواقف ہے۔

لینٹولس: روما کا ایک نوجوان امیرزادہ جس سے بالبو کی بیگم کے ناجائز تعلقات ہیں۔

جولیا: بالبو کی بدچلن بیوی۔

گالیا: بالبو کا سکریٹری۔

لوکسٹا: بالبو اور جولیا کی کنیز جو زہر دے کر قتل کرنےکے فن میں دستگاہ رکھتی ہے۔

منظر

دوپہر ڈھل چکی ہے، آفتاب کی تمازت کم ہوتی جاتی ہے۔ کلوزیم کی دیواروں کا سایہ لمباہوتا جاتا ہے۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی ہے۔ یہ وقت ہے جب روما کے رؤسا اور امرا اپنے محلوں کے برآمدوں میں نکل آتے ہیں۔

کلاڈیس بالبو کامحل بنیاد سے گنبد تک خالص مرمر کا بنا ہوا ہے۔ اس محل کے ایک برآمدہ میں بالبو اپنی بیگم کے عاشق لینٹولس کے ساتھ پالسو کا کھیل کھیل رہاہے۔ یہ دونوں مرمر کی نیچی چوکیوں پر رکھے ہوئے ریشم کے موٹے گدوں پر کچھ بیٹھے اور کچھ لیٹے ہوئے کھیل میں مشغول ہیں۔

بالبو: کھیلو۔ کھیلو، پانسہ پھینکو، پانسہ کو روکتے کیوں ہو۔ کس چکر میں ہو؟ (آنکھ مار کر اور سرہلا کر محل کے دروازے کی طرف دیکھتا ہے)

لینٹولس: ’’ہوں۔ کیا کہا؟ پانسہ؟ پانسہ تو پھینک رہا ہوں، یہ دیکھو، یہ مارا، لو چلو اٹھاؤ پانسہ۔‘‘

بالبو: ’’(ایک ہونٹ دانتوں کے نیچے دباکر) تمہارا پانسہ تو سیدھا پڑ رہا ہے۔ مگر کب تک؟ ایسا لوٹےگا کہ یاد کروگے۔ پانسہ کے بھروسہ پر نہ رہنا۔ میرا ہاتھ ابھی نہیں دیکھا۔‘‘

لینٹولس: ’’اجی سب دیکھ لیا۔ دیکھ چکے تمہارا ہاتھ! (پانسہ پھینک کر) پانسہ یوں پھینکتے ہیں، دیکھا؟ اب ذرا سنبھل کر پھینکو۔

(اٹھ کر ٹہلنے لگتاہے۔ دل ہی دل میں باتیں کرتا ہے۔ پانسہ پانسہ سیدھا پانسہ تو میرا ہے۔ اس گدھے کا پانسہ تو الٹا پڑچکا۔ نرا الو کا پٹھا ہے۔ جو روکو میں لے جاتاہوں شوہر آپ ہیں! دیوتاؤں کی دلگی بھی عجیب ہے۔ جولیا جیسی پری کاجوڑا لگایا بھی تو اس لنگور کےساتھ! واہ میرے دیوتاؤ)

بالبو: ’’کیا منمنا رہے ہو، لو پھینکو آخری ہاتھ۔‘‘

(جولیا محل کا پردہ اٹھا کر آتی ہے۔ اس کالباس بھی اتنا ہی حسین اور دلکش ہے۔ جس قدر وہ خود حسین ہے رخسار اورہونٹ غازہ کی سرخی سے گلاب کی طرح سرخ ہیں۔ اس کے جسم پر جواہرات جگمگا رہے ہیں)

جولیا: (بالبو کی طرف منہ بناکر) ’’لینٹولس سے پانسے پھنکوا رہے ہو۔ اور تمہیں خبر نہیں کہ وہ مجھے ساتھ لے کر اس وقت کلوزیم جانےوالا ہے۔ تم کو تو پانسہ پھینکنے کے سوا کوئی کام ہی نہیں، اورجب پھینکوگے الٹا۔

بالبو: ’’بیگم صاحبہ! معاف فرمائیے (منہ بناکر)مجھے کیا خبر تھی کہ لینٹولس کو ساتھ لے کر آپ تماشہ دیکھنے جارہی ہیں۔ لے جائیے، لے جائیے (لینٹولس سے) ’’جائیے جناب، جائیے۔ تشریف لے جائیے۔ مہربان، بیگم صاحبہ کو کلوزیم کا تماشہ دکھانے لے جائیے۔ (ذرا گرمہوکر) ’’جاؤ، تم دونوں جاؤ۔ میں کب کہتاہوں کہ نہ جاؤ۔ ایسے ایسے جاؤ کہ پھر واپس بھی نہ آؤ۔‘‘

جولیا: (جاتے جاتے رک کر) کیا فرمایا۔ مجھ سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہو؟ نہیں چاہتےکہ واپس آؤں۔ تو پھر قصہ ختم کرو۔ میرامہر مجھے دو۔ پورے دولاکھ جیب سے نکالو۔ میں کب تم جیسے گدھوں کے اصطبل میں رہنا چاہتی ہوں۔ مگرجاؤں گی اپنا مہر لے کر۔ اور تمہاری صورت کو آگ لگا کر۔ (زور سے دروازہ بند کرتی ہے اور محل سے نکل جاتی ہے)

بالبو: (سخت غصہ کی حالت میں ٹہل رہا ہے اور بڑبڑاتا جاتا ہے) ’’دیکھوں گا، دیکھوں گا، سمجھوں گا! طلاق لے گی؟ مہر لے گی؟ تو اور تیرا لینٹولس (دروازے کی طرف مکا دکھاتا ہے) لے! مجھ سے اپنا مہر لے اور لینٹولس کی بغل میں چین کر! (آواز دیتا ہے) ’’گلبا۔ گلبا۔۔۔‘‘

(گلبا داخل ہوتا ہے)

بالبو: جاؤ ان دونوں کے پیچھے جاؤ۔ لوکسٹا کو بلاؤ۔ اس سےکہو کہ جس وقت یہ دونوں واپس آئیں تو ان کے لیے تیز شراب کا ایک آخری جام تیار رہے۔ سمجھ گئے میرا مطلب!‘‘

(گلبا جاتا ہے اور بالبو کمرے میں بڑبڑا تاٹہل رہاہے)

بالبو: طلاق، مہر، لینٹولس کی معشوقہ، لوکسٹاکی شراب پی، ایک جام پی لے، میری پیاری بیگم! بیگم صاحب کی عمر کا پیالہ چھلکنا چاہیے۔ آج رات کے کھانے کے بعد، ناہید دیوتا کی قسم میں بغیر جولیا کامہر اداکیے انگیر پینا سے شادی کرسکوں گا۔ دیوتاؤں کا صدقہ!‘‘

دوسراسین

(محل کے باہر سڑک پر)

لینٹولس: کیوں جان من! وہ حلوہ بھی تیار کرلیا جوآج شب کو بالبو صاحب نوش فرمائیں گے۔

جولیا: (مسکراکر) نہیں۔ مگر میری کنیز لوکسٹا تیار کر رہی ہے۔ مطمئن رہو۔ وہ اپنےفن کی ماہر ہے۔ ناہید دیوتا کا سایہ ہمدونوں کے سرپر ہے۔ حلوہ بہت میٹھا ہے۔ بہت مزے کا ہوگا۔ میں نے لوکسٹاکو سمجھا دیا ہے کہ شکر زیادہ ڈالے۔

میرے عزیز شوہر حلوہ کھا کر سو رہیں گے! نہ طلاق! نہ مہر! بس لوکسٹا کا حلوہ میرے معزز شوہر کےحلق میں! دیوتاؤں کا صدقہ!‘‘

’’پردہ‘‘


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.