دیوان غالب/غزلیات/ردیف ل تا م

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیوان غالب by مرزا اسد اللہ خان غالب
ردیف ل تا م


ل[edit]

98[edit]

ہے کس قدر ہلاکِ فریبِ وفائے گُل
بُلبُل کے کاروبارپہ ہیں خندہ ہائے گُل

آزادئ نسـیم مبارک کہ ہـر طـرف
ٹوٹے پڑے ہیں حلقۂ دامِ ہوائے گُل

جو تھا ، سو موجِ رنگ کے دھوکے میں مر گیا
اے وائے ، نالۂ لبِ خونیں نوائے گُل !

خوش حال اُس حریفِ سیہ مست کا، کہ جو
رکھتا ہو مثلِ سایۂ گُل ، سر بہ پائے گُل

ایجاد کرتی ہے اُسے تیرے لیے بہار
میرا رقیب ہے نَفَسِ عطر سائے گُل

شرمندہ رکھتے ہیں مجھے بادِ بہار سے
میناۓ بے شراب و دلِ بے ہوائے گُل

سطوت سے تیرے جلوۂ حُسنِ غیور کی
خوں ہے مری نگاہ میں رنگِ ادائے گُل

تیرے ہی جلوے کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک
بے اختیار دوڑے ہے گُل در قفائے گُل

غالب ! مجھے ہے اُس سے ہم آغوشی آرزو
جس کا خیال ہے گُلِ جیبِ قبائے گُل


م[edit]

99[edit]

غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
برق سے کرتے ہیں روشن، شمعِ ماتم خانہ ہم

محفلیں برہم کرے ہے گنجفہ بازِ خیال
ہیں ورق گردانــئ نیرنگِ یک بت خانہ ہم

باوجودِ یک جہاں ہنگامہ پیرا ہی نہیں
ہیں "چراغانِ شبستانِ دلِ پروانہ" ہم

ضعف سے ہے، نے قناعت سے یہ ترکِ جستجو
ہیں "وبالِ تکیہ گاہِ ہِمّتِ مردانہ" ہم

دائم الحبس اس میں ہیں لاکھوں تمنّائیں اسد
جانتے ہیں سینۂ پُر خوں کو زنداں خانہ ہم


100[edit]

بـہ نالہ دل بستگـی فراہــم کـر
متاعِ خانۂ زنجیر جز صدا، معلوم


101[edit]

مجھ کو دیارِ غیر میں مارا، وطن سے دور
رکھ لی مرے خدا نے مری بےکسی کی شرم

وہ حلقۂ ہاۓ زلف، کمیں میں ہیں اے خدا
رکھ لیجو میرے دعوۂ وارستگی کی شرم


102[edit]

رسیدن گلِ باغ واماندگی ہے
عبث محفل آراۓ رفتار ہیں ہم

تماشاۓ گلشن تماشاۓ چیدن
بہار آفرینا! گنہ گار ہیں ہم

نہ ذوقِ گریباں، نہ پرواۓ داماں
نگاہ آشناۓ گل و خار ہیں ہم

اسد شکوہ کفرِ دعا ناسپاسی
ہجومِ تمنّا سے لاچار ہیں ہم