دیوانہ ہوں مجھے نہ تساہل سے باندھئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیوانہ ہوں مجھے نہ تساہل سے باندھئے
by جوشش عظیم آبادی

دیوانہ ہوں مجھے نہ تساہل سے باندھئے
ہاتھوں کو خوب رشتۂ کاکل سے باندھئے

اہل چمن کو اتنا پریشاں نہ کیجئے
بکھرے ہوئے یہ بال ہیں سنبل سے باندھئے

ہرگز نہ ہوجیے کس و ناکس سے ملتجی
اس غم کدے میں دھیان توکل سے باندھئے

یہ خوب جانتا ہوں کسی کو کرو گے قتل
خنجر کمر میں آپ تجاہل سے باندھئے

اس گلشن جہان میں بد عہد ہیں سبھی
بلبل یہاں نہ عہد کسی گل سے باندھئے

احوال ایک ہے دل وحشت سرشت کا
یا جز سے باندھئے اسے یا کل سے باندھئے

ؔجوشش تو اس طرح کی زمینوں میں یاد رکھ
مضموں جو باندھئے سو تأمل سے باندھئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse