دیوانگی نے کیا کیا عالم دکھا دیے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
دیوانگی نے کیا کیا عالم دکھا دیے ہیں
by حیدر علی آتش

دیوانگی نے کیا کیا عالم دکھا دیے ہیں
پریوں نے کھڑکیوں کے پردے اٹھا دیے ہیں

اللہ رے فروغ اس رخسار آتشیں کا
شمعوں کے رنگ مثل کافور اڑا دیے ہیں

آتش نفس ہوا ہے گل زار کی ہمارے
بجلی گری ہے غنچے جب مسکرا دیے ہیں

سو بار گل کو اس نے تلووں تلے ملا ہے
کٹوا کے سرو شمشاد اکثر جلا دیے ہیں

انسان خوبرو سے باقی رہے تفاوت
اس واسطے پری کو دو پر لگا دیے ہیں

ابروئے کج سے خون عشاق کیا عجب ہے
تلوار نے نشان لشکر مٹا دیے ہیں

کس کس کو خوب کہئے اللہ نے بتوں کو
کیا گوش و چشم کیا لب کیا دست و پا دیے ہیں

بے یار بام پر جو وحشت میں چڑھ گیا ہوں
پرنالے روتے روتے میں نے بہا دیے ہیں

وصف کمان ابرو جو کیجیے سو کم ہے
بے تیر بسملوں کے تودے لگا دیے ہیں

رویا ہوں یاد کر کے میں تیری تند خوئی
صرصر نے جب چراغ روشن بجھا دیے ہیں

سوز دل و جگر کی شدت پھر آج کل ہے
پھر پہلوؤں کے تکیے مشعل بنا دیے ہیں

شمعوں کو تو نے دل سے پروانوں کے اتارا
آنکھوں سے بلبلوں کی گلشن گرا دیے ہیں

وہ بادہ کش ہوں میری آواز پا کو سن کر
شیشوں نے سر حضور ساغر جھکا دیے ہیں

اشکوں سے خانۂ تن آتشؔ خراب ہوگا
قصر سپہر رفعت باراں نے ڈھا دیے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse